اسکے کرتوت آپ کو حیران کر ڈالیں گے
نئی دہلی (ویب ڈیسک) چھ سال پہلے سردیوں کے دن تھے۔ دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کے بہادر گڑھ میں بس سے اترتے
ہی 17 سالہ لڑکی نجف گڑھ تھانہ پہنچی ۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ روہتک کے راجپال نامی شخص کے پاس اس کے کچھ دستاویزات ہیں، پولیس انھیں وہ دستاویزات دلوا دے۔
نامور خاتون صحافی چنکی سنہا بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے اس لڑکی نے سونو پنجابن کا نام لیا اور کہا کہ وہ بھی ان
سے غلط کام کروانے والے لوگوں میں شامل تھیں۔ پولیس نے لڑکی کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لی۔سونو پنجابن عرصے سے پولیس سے بھاگ رہی تھیں اور اس کا نام غلط کام کرنے اور کروانے والی خواتین کی فہرست میں سب سے اوپر تھا ۔ جج کے مطابق وہ مہذب سماج میں رہنے کے قابل نہیں تھیں
لیکن دہلی میں لڑکیوں سے غلط کام کروانے والی سونو کا موقف تھا کہ خواتین کا اپنے جسم پر حق ہے اور انھیں اسے فروخت کرنے کا حق ہے، وہ تو صرف اس کام میں مدد کر تی ہیں۔ ’آخر کار ہم سب بھی تو کچھ نہ کچھ بیچ رہے ہیں۔ اپنا ہنر، جسم، روح، پیار اور نہ جانے کیا کیا؟‘سونو پنجابن کو 24 سال قید خانے بھیجنے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج پریتم سنگھ نے کہا: ‘کسی عورت کی عزت اس کی روح کی طرح قیمتی ہے۔ مجرم گیتا اروڑا عرف سونو پنجابن عورت ہونے کی تمام حدیں توڑ چکی ہیں۔ قانون کے تحت وہ سخت سے سخت سزا دی کی حقدار ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق سونو پنجابن خود اور دوسری لڑکیوں کو گائے اور بھینس میں دودھ اتارنے کے لیے دیا جانے والا انجیکشن استعمال کرواتی تھی ۔ یہ جسم کو جلدی تیار کر دیتا ہے۔’پولیس کا کہنا ہے کہ سونو کے بے حساب جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ ان کی بے رحمی کے صرف چند نمونے ہیں۔ وہ اس سے زیادہ بے رحم ہوسکتی ہے۔ جس کی شکایت پر سونو پنجابن کو سزا ملی تھی اس لڑکی کو اس نے خریدا تھا۔سونو کے گروہ میں بہت سی گھریلو خواتین اور کالج کی لڑکیاں تھیں۔ وہ ان خواتین سے غلط کام کروانے کے لیے سہولیات فراہم کراتی تھی اور بدلے میں کمیشن لیتی تھی۔ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کم عمر لڑکیاں سپلائی کرنے میں مشہور تھی ۔ ڈی سی پی سنگھ کے مطابق سونو پنجابن ایک شاطر عورت رہی ہے۔ اسےنہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی افسوس۔پولیس
والوں نے سونو پنجابن کو پکڑا تھا تو وہ اس کا حسن دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ انھوں نے موبائل فون کیمرے کے ساتھ اس کی تصویر بھی لی۔ بہر حال اب وہ دھندلی ہو چکی ہے۔پولیس نے ایک ڈائری بھی برآمد کی جس میں سونو کے صارفین کے نام اور رابطے تھے۔ ان کی موبائل فون بک بھی برآمد کی گئی تھی۔ سونو کے ریکٹ میں شہر کے ایلیٹ کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں بھی تھیں۔ وہ ان کے لیے کانٹریکٹ پر کام کرتی تھی۔پولیس کے مطابق ‘سونو پنجابن تیز طرار تھیں۔ اچھے کپڑے پہنتی تھیں۔ خود پر کافی اعتماد تھا۔ انھیں سنہ 2017 میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔ پولیس کو معلوم تھا کہ راز جاننا ہے تو سونو کی خاطر داری کرنی پڑے گی۔ ریڈ بل ڈرنکس، سینڈویچ، برگر اور پیزا اس کے پاس لائے جاتے تھے۔ کیلاش چند کی
طرح اس بار بھی پولیس ان کے لیے سگریٹ خرید کر لاتی تھی۔ مشرقی اور جنوبی دہلی میں دھندہ کرنے والی سونو پنجابن سنہ 2011 میں گرفتاری کے بعد سے ہی خبروں میں ہیں۔ اخبارات میں ان کے بارے میں شائع ہونے والی کہانیوں کے مطابق ان کا طرز زندگی پرتعیش رہی ہے۔ ان کے بہت سے عاشق اور کم از کم چار شوہر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سونو کی موت کے بعد وہ بے سہارا محسوس کرنے لگی۔ ان کے دونوں بھائی بے روزگار تھے۔ والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اپنے بیٹے اور والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آگئی۔ اسی کے ساتھ ہی اس دھندے میں آگئی ۔،سونو پنجاب سنہ 1981 میں دہلی کی گیتا کالونی میں پیدا ہوئيں۔ ان کا نام گیتا مگّو تھا۔ ان کے دادا بطور پناہ گزین پاکستان سے آئے تھے اور روہتک میں آباد ہوئے تھے۔ ان کے والد اوم پرکاش دہلی آئے تھے اور آٹو رکشہ چلاتے تھے۔