لاہور (ویب ڈیسک) میں تمہیں کل کی بات بتاتا ہوں، میں دوست کو ملنے اس کے دفتر گیا، لفٹ میں داخل ہوا، اتنے میں ایک خاتون بھی بچہ اٹھائے لفٹ میں داخل ہو گئی، میں نے لفٹ کا بٹن دباتے ہوئے فلور کا پوچھا فرسٹ یا سکینڈ، منہ پھلا کر غصے سے
بولی، یہ میرا نہیں ہے، میں اس کی پھوپھو ہوں۔ نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیخو کے چہرے پر مسکراہٹ آئی، سگار کے دو کش مار کر بولا، اچھا یہ بتاؤ، جس شرٹ پر ٹی گر جائے، اسے کیا کہتے ہیں، میں نے کہا، آ پ ہی بتا دیں، کہنے لگا، جس شرٹ پر ٹی گر جائے، اسے ٹی شرٹ کہتے ہیں، میں نے کہا، آپ کو نہیں لگتا، جن کی شادیاں کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوئیں، قدرت نے انہیں غور و فکر کا ایک اور موقع دیا ہے۔بولا، بات میں دم ہے، میں نے کہا، اچھا یہ تو بتائیں، شہزادہ چارلس کو کیوں کورونا ہو گیا، بولا، ڈیانا کی بددعائیں، میں نے کہا، پھر وہ ٹھیک کیسے ہوگیا، بولا، ڈیانا شروع سے ہی بھلی مانس، رحم دل تھی، معاف کر دیا ہوگا، میں نے پوچھا اور ملکہ کیوں محل چھوڑ گئی، بولا، ڈیانا کی وجہ سے، ساری عمر اس پاپی بابی نے ڈیانا کو محل میں سکون سے نہیں رہنے دیا، یہ تو ہونا تھا۔اس سے پہلے میں کچھ بولتا، سگار کے دو کش لگا کر زیر لب مسکراتے شیخو نے کہا، آج تمہیں دیکھ کر مجھے وہ سردار یاد آ رہا جو بلب پر اپنے باپ کا نام لکھ رہا تھا، کسی نے پوچھا، یہ کیا کر رہے ہو، سردار کا جواب تھا، باپ کا نام روشن کر رہا
ہوں، میں نے کہا، بھائی جان آج آپ کو دیکھ کر مجھے بھی وہ شخص یاد آ رہا، جس کی بیوی مری، کچھ دنوں بعد وہ روزانہ بیوی کی قبر پر بیٹھنے لگا، ایک دن گورکن نے آکر کہا۔عمر گزر گئی مگر اپنی بیوی سے یہ محبت کبھی نہ دیکھی، وہ شخص گورکن کو پاس بلاکر بولا، اصل میں بات یہ، میری بیوی مرنے سے پہلے کہہ گئی تھی کہ میری قبر کی مٹی خشک ہونے سے پہلے شادی نہ کرنا، میں اس لئے یہاں بیٹھا ہوں کوئی الو کا پٹھا ہر روزقبر پر چھڑکاؤ کر جاتا تھا، میری بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے شیخو نے کہا، سارا دن کورونا خوف سے گھر میں پڑے رہتے ہو، بور نہیں ہوتے۔میں نے کہا، بھائی جان مرحوم ہونے سے کہیں بہتر ہے بور ہونا، اچھا یہ تو بتاؤ کپتا ن کی کورونا خاتمہ کوششوں پر مطمئن ہو، وگ کے بال سنوار کر شیخو بولا، الحمدللہ وزیراعظم عمران خان کی کوششوں سے کورونا کی آدھی موت ہو چکی، میں نے کہا، کیا کہا، آدھی موت ہو چکی، دیکھو اپنے لیڈر سے محبت کرو، لیکن اس کی بھینس کے گوبر کو حلوہ تو ثابت نہ کرو، اس سے پہلے کوئی اور بات ہوتی شیخو اچانک اُٹھ کر کھڑا ہوا، بولا، اجازت؟میں نے کہا، اجازت تو ہے مگر کورونا کا موسم، احتیاط کریں، شیخو دو قدم چل کر دروازے پر پہنچا، واپس مڑا اور یہ کہہ کر ’’میرا کورونا، میری مرضی‘‘ دروازے سے
نکل گیا۔ اِدھر شیخو دروازے سے نکلا، اُدھر میرے دماغ نے دوڑنا شروع کر دیا، ’میرا کورونا، میری مرضی‘ بات تو سچ، واقعی غور کریں، نظامِ قدرت ایک ہی آواز لگا رہا، میرا کورونا، میری مرضی، ایک وائرس، 3مہینے، کیا کچھ نہ ہو چکا، مودی کہہ چکا، اللہ، رحمٰن، رحیم، رسولؐ امن کے سفیر، ٹرمپ 3بار قرآن کی تلاوت سن چکا، ٹرمپ کا بائبل مشیر امریکی کابینہ کو بتا چکا، کورونا وائرس خدا کا عذاب، خدا ہم سے ناراض، خدا کو منا لو، ورنہ کچھ نہیں بچے گا، غرناطہ میں 5سو سال بعد اذان ہو چکی، ویٹیکن سٹی میں پورا دن سورہ رحمٰن چل چکی، آدھا یورپ سجدۂ توبہ کر چکا، اٹلی کا وزیراعظم کہہ چکا، ہمارے پاس سب وسائل مگر ہم بےبس، اب ہمیں آسمانی مدد کا انتظار۔واقعی میرا کورونا، میری مرضی، عقل، سائنس، دنیا کے بہترین نظام سب فیل، ٹیکنالوجی نے قدرت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، انسانیت خالق کی طرف متوجہ ہوئی، تیل والے تیل کے کنوؤں پر بےبس بیٹھے ہوئے، دولتوں کے انبار پر موت کا خوف بھاری، شرعی فاصلے قائم ہو رہے، چھینکنے، کھانسنے کے آداب، صفائی کی اہمیت، جسم ڈھک گئے۔جہاں نقاب کرنے پر جرمانہ وہاں اب نقاب نہ کرنے پر جرمانہ، اور یہ سب ایک وائرس نے کیا، ایک نہ نظر آنے والے وائرس نے، یقین جانیے، اگرقدرت کی طاقتوں کا شمار ہو تو کورونا کسی گنتی نہ شمار میں، مگر ٹرمپ، پیوٹن، چین، یورپ، ایٹمی صلاحیتیں، سائنسی عقلیں سب پر ایک کورونا بھاری، قدرت کی آواز سنو، میرا کورونا، میری مرضی۔