لاہور (نیوز ڈیسک) اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کو اسلامی ممالک سے اپنا وجود تسلیم کروانے کی ایک وجہ تو اپنے ناجائز وجود کو بالاخر مسلم ممالک میں جائز حیثیت دلا کر مسلمانوں سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کی پیش بندی بھی ہے
نامور خاتون مضمون نگار سارہ لیاقت اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔جس کا ذکر قرآن شریف میں او ر تورات میں موجود ہے ۔ دوسری طرف مخفی طور پر اس تابوت سکینہ کی تلاش بھی ہے جس کے ذریعے سے یہودی اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کر کے دنیا بھر میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ تابوتِ سکینہ جو ایک پراسرار صندوق شمشاد کی لکڑی کا بنا ہوا تھا اور اس صندوق میں حضرت موسیٰ کا عصا اور ان کی جوتیاں، حضرت ہارون کا عمامہ، حضرت سلمان کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے، کچھ من و سلویٰ وغیرہ تھا ، بنی اسرائیل میں یہ صندوق بڑا ہی مقدس اور بابرکت سمجھا جاتاتھا۔کفار کے ساتھ ہر لڑائی میں یہ اسے اپنے ساتھ رکھتے اور اس کی برکت سے یہ لڑائیوں میں فتح یاب ہوجاتے تھے۔بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تو یہ لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے، یہ صندوق جوتاریخ میں تابوتِ سکینہ کے نام سے مشہور ہے بنی اسرائیل میں بہت مقدس اور فتح کے نزول کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب بنی اسرائیل حدودسے تجاوز کرتے ہوئے اپنی سرکشی اور گناہوں میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، قوم عالقہ دھاوا بول کے انہیں تباہ و برباد کر نے کے ساتھ مقدس صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے اور اسے گندگی میں پھینک دیاجس سے ان پہ طرح طرح کی وبائیں اور مصیبتیں آنے لگیں ان کو یقین ہو گیا کہ یہ اس صندوق کی بے ادبی کانتیجہ ہے ۔
لیکن نہر کے قریب پہنچتے ہی اسی ہزار کے اس لشکر کے زیادہ تر لوگوں نے پیٹ بھر کے پانی پی لیا اور لڑنے کے قابل نہ رہے صرف چار ہزار سپاہی آپ کا حکم بجا لائے حضرت طالوت نے اللہ کے حضور گڑ گڑا کے دعا کی جو قبول ہوئی اور اللہ نے انھیں فتح سے ہمکنار کیا۔جالوت بہت طاقتور تھا ، حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں اعلان کیا کہ جو شخص جالوت کی جان لے گامیں اس کے ساتھ اپنی شہزادی کا نکاح اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔ لڑائی شروع ہوئی تو حضرت داؤدنے جالوت کو زندگی سے محروم کر دیا جس سے اس کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور کفار کو شکست ہوگئی حضرت طالوت نے اپنی شہزادی کا نکاح حضرت داؤدسے کردیا اور انھیں اپنی آدھی سلطنت کا بادشاہ بھی بنادیا۔اس کے چالیس سال بعد جب حضرت طالوت کا انتقال ہوگیا بعد میں حضرت شموئیل کی بھی وفات ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو بادشاہت عطا کر دی ۔ حضرت داؤد کی خواہش تھی تابوت سکینہ کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی مستقل جگہ بنائی جائے جسے حضرت سلیمان نے اپنے دور میں اپنے محل میں جنوں سے تعمیرکروایا جو ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور ہوئی۔ 598 قبل مسیح میں جب ایک ظالم بادشاہ بخت نصر نے بنی اسرائیل پر ہلہ بولا تو دوسری عمارتوں کے ساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی کو بھی تباہ وبرباد کردیا،اس افراتفری میں تابوت سکینہ غائب ہوگیااور آج تک اسکا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ یہودی آثار قدیمہ کی باقیات ڈھونڈنے کے بہانے دنیا بھر میں آج بھی اس تابوت کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ فلسطین کا بہت سا علاقہ انہوں نے چھان مارا ہے ۔ ان کے مطابق تابوت سکینہ یا تو حضرت سلیمان کے محل کے آس پاس ہے یا یہ مشرق وسطی میں کہیں موجود ہو سکتا ہے ۔ اس کے بارے میں کئی قیافے لگائے جاتے ہیں لیکن حتمی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ امرطے ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے حق میں دنیاوی فوائد کی دلیلیں دینے والے دانشور یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن شریف میں واضح طور پہ کہا ہے کہ یہود و نصاری کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ اپنے فلسطینی بھائیوں کی لاشوں پہ آرزوئوں کے محل تعمیر کرنے والی اسلامی ریاستیں یہ یاد رکھیں کہ تاریخ مجرموں کو کبھی معاف نہیں کرتی ابھی وقت ہے کہ امت مسلمہ یہودیوں کی آلہ کار بننے کی بجائے آپس میں متحد ہو کے اپنے مفادات کا تحفظ کرے ورنہ آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔