اسلام آباد (نیوز ڈیسک) حکومت نے ملک بھر میں تعلیمی ادارے 11جنوری سے کھولنے کا فیصلہ کر لیا جبکہ یونیورسٹیز یکم فروری سے کھلیں گی ۔ وفاقی وزیر شفقت محمود کی زیر صدارت بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس پیر کو منعقد ہوئی جس میں چاروں صوبوں کے وزارت تعلیم کے نمائندوں اور وزارت صحت کے
نمائندوں نے شرکت کی ۔اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ آٹھویں جماعت تک تعلیمی ادارے 20جنوری کو کھولے جائیں گے جبکہ نویں اور بارہویں تک 11جنوری کو کھولے جائیں جبکہ یونیورسٹیز یکم فروری کو کھولی جائیں گی۔
دوسری جانب نجی امیدوار کی حیثیت سے اعلی تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طلبہ 31 مارچ کے بعد اب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیز کو بی اے اور ایم اے کے امتحانات کے لیے پرائیوٹ طلبہ کا داخلہ روکنے کی ہدایت کی ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمت یا کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے پرائیوٹ امتحان دینے والے طلبہ کے لیے صوبے میں ایچ ای سی اور یونیورسٹیز نے پاکستان میں تعلیمی ادارے کھولے جا رہے ہیں یا نہیں ؟ کوئی متبادل نظام تیار نہیں کیا ہے۔پبلک سیکٹر کی 30 یونیورسٹیز میں سے چند کے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ سال عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے زیر اہتمام بیچلر آف آرٹس (بی اے) کے امتحان میں 30 ہزار طلبہ نجی امیدوار کی حیثیت سے حاضر ہوئے، یونیورسٹی آف پشاور میں 25 طلبہ، بنوں یونیورسٹی میں 20 ہزار 450 اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں 11 ہزار طلبہ امتحان میں شریک ہوئے۔ذرائع نے بتایا کہ ‘تقریبا اتنے ہی امیدوار ماسٹر آف آرٹس (ایم اے) امتحانات میں بھی شریک ہوئے’۔انہوں نے کہا کہ نجی امیدواروں کی حیثیت سے بی اے اور ایم اے کی سطح پر تعلیم کے حصول کو ایچ ای سی نے صوبہ بھر میں
پہلے ہی شروع کیے گئے 4 سالہ بیچلر آف اسٹڈیز پروگرام کے متبادل کے طور پر روک دیا ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ایچ ای سی نے یونیورسٹیز کو بی اے اور ایم اے امتحانات کے لیے نجی امیدواروں کا 31 دسمبر 2020 سے داخلہ نہ کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم سرکاری شعبے کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی درخواست پر ایچ ای سی نے اس تاریخ میں 31 مارچ 2021 تک توسیع کردی ہے۔گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر افتخار احمد نے ڈان کو بتایا کہ ایچ ای سی نے پہلے سے ہی بی اے / بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے والے اور ایم اے / ایم ایس سی میں باقاعدہ داخلہ لینے کے خواہاں یا بطور نجی امیدوار امتحانات کے منتظر طلبہ کے لیے کوئی واضح ہدایت نامہ فراہم نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایچ ای سی نے بی اے / بی ایس سی کے تیسرے سال کے امتحانات میں شرکت کرنے والے طلبہ کے لیے بھی کوئی رہنما اصول فراہم نہیں کیا جو آئندہ سال چوتھے سال کے امتحانات میں شرکت کریں گے۔پروفیسر افتخار احمد نے کہا کہ ‘ایچ ای سی کے فیصلے کے نفاذ کے ساتھ مجھے ڈر ہے کہ ہم حکومت کی تعلیم تک رسائی کی پالیسی کے خلاف کام کریں گے اور ہزاروں پرائیوٹ طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا’۔انہوں نے کہا کہ صوبے کے تمام سرکاری شعبوں کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرار داد کے ذریعے ایچ ای سی سے مطالبہ کیا ہے کہ بی اے / بی ایس سی اور ایم اے / ایم ایس سی کو فارغ کرنے کے لیے اس میں 2023 تک توسیع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جن یونیورسٹیز کو شدید مالی پریشانی کا سامنا ہے وہ نجی امیدواروں سے وصول کی جانے والی فیسوں کے ذریعہ اپنی آمدنی کا 33 فیصد حاصل کرتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں طلبہ نے ایچ ای سی کے فیصلے کے خلاف بار بار مظاہرے کیے۔انہوں نے کہا کہ طلبہ کو نجی طور پر تعلیم حاصل کرنے سے روکنا بھی پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت حکومت کو یہ پابند بنایا گیا ہے کہ وہ طلبہ کی تعلیم تک رسائی کو یقینی بنائے۔انہوں نے کہا کہ بی اے اور ایم اے سطح پر نجی طلبہ کی تعداد ریگولر طلبہ کے برابر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘عام طور پر طلبہ اپنی ملازمت، کالجز اور یونیورسٹیز کی فیس بھرنے کی استطاعت نہ ہونے اور کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے پرائیوٹ تعلیم کا انتخاب کرتے ہیں’۔