لاہور (نیوز ڈٰسک) نامور خاتون کالم نگار عنبر شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔کچھ روزقبل ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ پڑھ کے بہت افسوس ہوا۔ بچی گجرات سے پڑھنے لاہور آئی یہاں عشق کے چکر میں پھنس گئی والدین کے اعتماد کو اس نے ٹھیس پہنچائی
غیر محرم کی دوستی کی اور اس دوران اس کی باتوں میں آ کر روابط قائم کر لیے اور نتیجہ پیٹ پکڑ کر بیٹھ گئی پھر والدین سے جھوٹ بول کر فیس کے بہانے پیسے منگوائے اور آپریٹ کے دوران موت واقع ہو گئی اور لڑکا اسے چھوڑ کر فرار ہو گیا لیکن سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے اس کا پتہ چل گیا اگر یہ کیمرہ نہ ہوتا تو پھر کبھی پتہ بھی نہ چلتا اس بچی کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ عشق کے چکر میں گندگی میں اتر گئی اور جان چھڑانے کے چکر میں جان گنوا بیٹھی لڑکا اسے چھوڑ کر فرار ہو گیا۔پچیاں تو معصوم ہوتی ہیں والدین ان کو بہت لاڈ پیار سے پالتے ہیں لیکن جب یہ والدین سے الگ ہوتی ہیں تو اسی پیار کے چکر میں کسی کسی نہ کسی بھیڑیے کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور والدین کی عزت خاک میں ملا جاتی ہیں۔۔یہاں سوال ایک بچی کا نہیں تمام معاشرے کا ہے جس کو مشرف نے روشن خیالی کے چکر میں بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔۔سوچو! والدین کیسے اعتماد کریں گے؟اصل بات بچوں کی تربیت کی ہے ان پہ اعتماد کرنے اور انہیں اعتماد دینے کی ہے۔ اگر بچے سے غلطی ہو جائے تو اسے اپنے والدین پہ اتنا بھروسہ ضرور ہو کہ وہ جا کے انہیں بتا سکے گھر میں یا شہر میں بند کر کے رکھنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ والدین سے گزارش ہے تعلیم بھی ہوتی رہے گی، جابز بھی ملتی رہیں گی، بس بچوں کی جلد شادیوں کو اپنانا شروع کریں۔ بلوغت کے آتے شادیاں کر دینی چاہئیں، ایسا اسلامی اور فطری طریقہ نہ اپنایا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی اور بے حیائی کا سیلاب ہم سب کو بہا کر لے جائے گا۔ روشن خیالی کی بھڑکائی ہوئی آگ ہم ہمارے گھروں تک آچکی ہے۔ دین سے دوری ان مسائل کی اصل جڑ ہے ۔آپ بچوں کی جب تک اسلامی طریقوں پر تربیت نہیں کریں گے ایسا ہوتا رہے گا۔ آپ ساری زندگی کیمرے لگا کر اولاد پر نظر نہیں رکھ سکتے،لیکن آپ ان کو اس طرح تیار ضرور کر سکتے ہیں کہ وہ صحیح غلط کو سمجھتے ہوئے ٹھیک راستے پر چلیں۔یہ اسلامی تعلیمات سے ہی ممکن ہے۔