لاہور (نیوز ڈیسک) آپ سندھ پولیس کا تازہ بحران دیکھ لیں‘ آئی جی سندھ کو رات چار بجے گھر سے لے جایاگیا اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا۔آئی جی نے صبح ساڑھے سات بجے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو بتایا‘ وزیراعلیٰ نے انھیں
خاموش رہنے کا حکم دے دیا‘نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایشو سارا دن چلتا رہا‘ اگلے دن پولیس کے اعلیٰ حکام وزیراعلیٰ سے ملے اور شدید احتجاج کیا‘ وزیراعلیٰ نے انھیں تسلی دی لیکن پریس کانفرنس کے دوران آئی جی کا نام تک نہ لیا‘ صحافیوں کو بھی سوال کرنے سے روک دیا گیا‘ آئی جی مشتاق مہر یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکے اور چھٹی پر جانے کا فیصلہ کر لیا‘ مشتاق مہر ایک ایمان دار اور دبنگ افسر ہیں چنانچہ پولیس فورس ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔سات ایڈیشنل آئی جیز اور 20 ڈی آئی جیز نے بھی چھٹی کی درخواست دے دی‘ ایڈیشنل آئی جی عمران یعقوب منہاس نے آغاز کیا‘ عمران یعقوب منہاس نے اپنی درخواست سوشل میڈیا پر بھی جاری کر دی‘ یہ ’’ٹو مچ‘‘ تھا لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس پولیس فورس کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا‘ بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کی اور براہ راست آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا‘ یہ آئی جی کے گھر بھی گئے یوں ایک معمولی سے ایشو نے پولیس اورفوج کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جس سے ثابت ہو گیا ملک کے اندر اداروں کی لڑائی بھی شروع ہو چکی ہے‘ یہ لڑائی آنے والے دنوں میں مزید بھی بڑھے گی۔کیوں؟ کیوںکہ حکومت نے پی ڈی ایم توڑنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘
یہ کراچی پیکیج سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے‘ یہ جزیروں کا ایشو بھی سیٹل کر دے گی‘ اومنی گروپ کے مقدمات بھی ’’سلو ڈاؤن‘‘ ہو جائیں گے ‘ این ایف سی ایوارڈ میں بھی سندھ کو حصہ مل جائے گا جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے الگ ہو جائے گی اور اس کے بعد ملک میں مزید گند پڑ جائے گا‘ پردے مزید ہٹ جائیں گے۔ہمیں آج یہ ماننا ہوگا یہ صورت حال حکومت کی بیڈ گورننس نے پیدا کی اور اداروں کو مجبوراً آگے آنا پڑ گیا‘ آج ملک کا ہر ادارہ کنفیوژن اور بدانتظامی کا شکار ہے اور ادارے چلانے کے لیے ان لوگوں کو میٹنگ میں بیٹھنا پڑرہا ہے جن کا سرے سے یہ کام نہیں ہے‘ حکومت کو چلانے کے لیے چند مزید اقدامات بھی کیے جارہے ہیں‘ آنے والے دنوں میں پوری ٹاپ بیورو کریسی بدل دی جائے گی‘ کابینہ میں بھی تبدیلیاں ہوں گی لیکن سوال یہ ہے اگر ان تبدیلیوں کے باوجود حالات نہ بدلے تو پھر کیا ہو گا؟ پھر جو بھی ہو گا وہ ملک کے لیے بہت برا ہو گالہٰذا ہمیں سوچنا ہوگاہم اگر یہ ملک بچانا اور چلانا چاہتے ہیں تو پھر میری درخواست ہے آپ کارٹر فارمولے پر چلے جائیں۔آپ بیرونی اور اندرونی دونوں تنازعے ختم کر دیں کیوں کہ ہم بیک وقت دو دو لڑائیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ آپ یہ فیصلہ بھی کر لیں ملک کس نے چلانا ہے؟ ہم اگر آمریت کے ذریعے بچ سکتے ہیں تو آپ بے شک ملک میں تیس چالیس سال کے لیے مارشل لاء لگا دیں‘ ہمیں اگر کوئی ارطغرل غازی چاہیے تو آپ ملک میں بے شک خلافت قائم کر دیں اور ہمیں اگر جمہوریت بچا سکتی ہے تو پھر آپ جمہوریت کو پھلنے اور پھولنے کا موقع دیں‘ ملک چل پڑے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم باہر اور اندر دونوں محاذوں پر لڑتے لڑتے ختم ہو جائیں گے۔فیصلے کی گھڑی آ چکی ہے‘ آپ خود کر لیں گے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں وقت ہمیں مزید وقت نہیں دے گا‘ یہ ہمیں روند کر آگے نکل جائے گا۔