لاہور (نیوز ڈیسک) میاں بیوی کے درمیان جب شدید قسم کا جھگڑا ہوا تواس دوران شوہر کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکل گیا کہ۔۔سارا جھگڑا ہی یکلخت ختم ہوگیا۔۔شوہر نے غصے میں اچانک کہہ دیا کہ۔۔ خوب صورت ہوتو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو چاہے بول دو۔۔اس کے بعد بیوی
نے کچھ کہاہی نہیں بلکہ چائے کے ساتھ پکوڑے بھی بناکر شوہرکے سامنے بڑی محبت سے پیش کئے۔۔نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اسی لئے کہتے ہیں کہ ۔۔ہمیں بیماری سے لڑنا ہے، بیمار سے نہیں۔۔پرانے وقتوں کے لوگ بہت سادہ ہوا کرتے تھے۔۔ تاریخ پو چھنے کے لئے بھی محلے کے کسی بزرگ میاں جی کے پاس جایا کرتے تھے۔۔ کیلنڈر نہیں ہوتے تھے۔ بس میاں جی نے جو تاریخ کہہ دی مان لیتے ۔۔میاں جی کے پاس کونسا کمپیوٹر، موبائل یا کیلنڈر تھا بلکہ ایک سادہ ایجاد تھی۔۔میاں جی باقاعدگی سے چاند دیکھتے اور روزانہ اپنے حجرے میں رکھے ہوئے لوٹے میں اپنی بکری کی مینگنی ڈال دیتے جب کوئی تاریخ پو چھنے آتا لوٹا الٹتے مینگنیاں گن کر۔۔باہر جاکر تاریخ بتا دیتے۔۔ایک مرتبہ میاں جی کی بکری حجرے میں داخل ہوئی اور اس نے براہ راست لوٹے کے اوپر مینگنیاں کردیں۔۔اگلے دن کوئی تاریخ پوچھنے آیا۔۔ میاں جی حجرے میں گئے اور لوٹا الٹا تو حیران ہوگئے۔۔ لوٹا تو منہ تک بھرا ہوا تھا مجبورا گنتی شروع کی آدھے گھنٹے بعد جب گنتی پوری ہوئی تو پسینے سے شرابور میاں جی باہر نکلے تو سائل نے کہا۔۔ جی میاں جی کیا تاریخ ہے؟؟میاں جی بولے بیٹا آج 80 تاریخ ہے۔۔سائل حیران ہو کے کہنے لگا۔۔ میاں جی خدا کا خوف کھائیں 80 بھی تاریخ ہوتی ہے۔۔میاں جی بولے۔۔ برخوردار، خدا کا خوف کھا کر ہی 80 بتارہا ہوں ورنہ لوٹے کے مطابق تو آج 280 تاریخ ہے۔۔ایک بندہ باہر سے واپس آیا تو دیکھا کہ ۔۔ گھر میں نوکر چاکر گاڑیوں کی ریل پیل لگی ہوئی ہے،
ہر طرف خوشحالی۔۔ ہر کمرے میں اے سی چل رہاہے۔۔وہ بڑا حیران ہواکہ۔۔ جتنے پیسے میں بھیجتا ان میں یہ سب تو نہیں ہوسکتا جب حساب کیا تو پتہ لگاکہ 40 لاکھ سال کا بھیجتا جبکہ گھر والے 60 لاکھ خرچ کرتے۔۔پوچھا۔ باقی 20 لاکھ کہاں سے آتا تو پتہ لگا وہ قرض لیتے تھے جس سے قرض 100 لاکھ چڑھ گیا۔ بندہ بہت پریشان ہوا اور سوچا اس کو ٹھیک کرنا ہے۔بھائیوں نے بتایا کہ۔۔ فوری 10 لاکھ قرض کی قسط بھی واپس دینی ہے اور 20 لاکھ اضافی خرچ والا بھی چاہیے۔۔اپنا اکاؤنٹ دیکھا تو اس میں صرف 9 لاکھ تھے ۔۔مرتا کیا نا کرتا بیچارے نے دوستوں سے فوری ادھار مانگا تاکہ قسط بھی اتارے اور اضافی خرچ بھی پورا کرے۔۔پھر اس نے فالتو نوکر نکالنے کا سوچا تو پتہ لگا ان سے تو کئی سال کا معاہدہ ہے کام کریں نا کریں تنخواہ دینا ہو گی۔۔ بجلی کا پتہ لگا کہ ۔۔ کئی ماہ بل نا جمع کرانے سے 12 لاکھ تک چڑھ چکا۔خیر بڑی زور زبردستی اور گھر والوں کی ناراضگی مول لیکر پہلے سال اس نے 60 لاکھ سے خرچہ کم کرکے 53 لاکھ کیا لیکن اب بھی آمدن سے 13 لاکھ کا فرق تھا لہٰذا مزید قرض لیکر فرق ادا کیا اور مزید سختی شروع کردی جس سے دوسرے سال خرچ اپنی کمائی کے قریب 44 لاکھ پر لے آیا۔۔اب ساری کوشش یہ ہے کہ اپنی آمدن 40 لاکھ سے بڑھائے تاکہ گھر والوں پر سختی کم ہو اور حالات بہتر ہوں۔ گھر والے کہتے ہیں تمہارے آنے سے پہلے سب اچھا بھلا چل رہا تھا تم نے تو ہماری زندگی عذاب کردی۔۔واقعہ کی دُم: یہ قطعی غیرسیاسی معاملہ ہے اسے موجودہ حالات سے ہرگزہرگز نہ جوڑا جائے۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سب کو سچ بولنے کی آزادی ہے مگر ایسا کرنے کے بعد کی آزادی ایک الگ مسئلہ ہے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔