ان دنوں میں لاہور میں نیا نیاآیا تھا اور ایک نجی ہوسٹل میں رہتا تھا۔ہوسٹل میانی صاحب سے ایک کلومیٹر فاصلہ پر تھا ۔میری عادت تھی کہ جمعرات کو قبرستان جاتا اور اہل قبر کے لئے دعا کرتا تھا ۔ایک دن میں دعا کرکے میں واپس پلٹ رہا تھا کہ اچانک
ایک نوجوان میرے سامنے آگیا ۔وہ معمولی سی جسامت کا مالک تھا،ہڈیاں اندر کودھنسی ہوئیں ،کھالبھی جسم سے چمٹی ہوئی تھی۔لگتا تھا برسوں سے بھوکا ہے یا بیمار ہے ۔لیکن اس کے ہاتھ میں کدال دیکھ کر سمجھ آگئی کہ یہ گورکن ہے۔ ’’ آپجس قبر پر دعا کررہے تھے ادھر کوئی نہیں ہے ‘‘ اس نے مہین سی آواز میں ایسا انکشاف کیا کہ میں غور سے اسکو دیکھنے پر مجبور ہوگیا ۔ ’’تمہیں کیسے پتہ؟‘‘ میں نے الجھی نظروں سے سوال کیا۔ اس نے کاندھے اچکائے اور چلا گیا ۔اس دوران چند لوگ ادھر نکل آئے۔انہوں نے اسے آواز دی۔’’ اوئے رمضانی بات سنتاجا‘‘ وہ اسکے پاس گئے تو میں بھی ان کے قریب چلا گیا ۔ ’’ کوئی جگہ بتا ،داداجی کی قبر کھودنی ہے‘‘ ان میں سے ایک نے سو سو کے چند نوٹ نکال کر اسے دئے۔اس نے جیب میں ڈالے اور انہیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔نہ جانے میں بھی ان کے پیچھے پیچھے کیوں چل دیا ۔ایک ڈھلوان نما نشیب کے پاس چند قبروں کے پاس کھڑے ہوکر وہ قبروں کو سونگھنے کے انداز میں دیکھتا رہا ۔پھر اشارہ کیا ’’ یہ قبر خالی ہے ‘‘ ’’اچھا تو پھر قبر بھی بنادے،جنازہ عشاء کے بعد لانا ہے ‘‘ ایک موٹے سے بندے نے کہا۔میں بڑا حیران ہوا کہ کہ اسے کیسے معلوم کون سی قبر خالی ہے اور کس میں مردہ ہوگا ۔ذہن میں آیا کہ لازمی ان لوگوں نے جعلی قبریں بنا رکھی ہیں اور پیسے لیکر قبریں دیتے ہیں
۔یہ بھی تو ایک دھندہ ہی تھا ۔لیکن میرا خیال اس وقت ریزہ ریزہ ہوگیا جب میں نے بڑے اور بوڑھے گورکن سے یہ سوال کیا’’ تم لوگ قبریں بھی بیچتے ہو‘‘ اس نے چونک میری جانب دیکھا اور پوچھا ’’ کیا ہوا صاب‘‘میں نے رمضانی کے بارے اسے بتایاتو اسکے چہرے پر کرب ناک سی تاریکی چھا گئی۔پہلے اس نے کچھ بتانے میں تامّل برتا۔چند لمحوں بعد بولا’’ وہ قبر کا بیٹا ہے،مٹی تو بتائے گی ناں اسے کہ اسکی ماں کی گود میں کون سویا ہوا ہے ‘‘ یہ سن کر مجھے اسکی دماغی صحت پر شک ہوا ’’ میں سمجھا نہیں ‘‘ ’’ تو سمجھے گا کیسے ،یہ بات تو کوئی بھی نہیں سمجھ پایا ،یہ جانتا ہوں تو صرف میں۔پینتیس سال پہلے اسی قبرستان کا واقعہ ہے ۔اس وقت میری عمر چالیس سال تھی۔رمضان کا مہینہ تھا ۔یہ تاریک رات تھی،بارش ہورہی تھی اور بجلیاں کڑک رہی تھیں ۔میں اس ڈھیری کی جانب سے ‘‘ اس نے بائیں طرف انگلی کا اشارہ کیا’’اپنی کٹیا میں جارہا تھا کہ مجھے ایک بچے کے رونے کی آواز آئی ۔میں رک گیا اور آواز کا پیچھا کرتا ہوا اس جگہ پہنچا تو دیکھا یہ آواز ایک تازہ قبر سے آرہی تھی جس کو بارش نےاب کافی ننگا کردیا تھا ۔قبر تقریباً بیٹھ رہی تھی ،بچے کی آواز اسی قبر سے آرہی تھی۔میں نےہمت کی اور قبر کھود کر جب نیچے کی طرف دیکھا تو اس لمحہ بجلی زور سے کڑکی ۔اسکی روشنی قبر میں سفید کفن میں ایک
عورت آڑھی ترچھی ہوئی پڑی تھی ،کفن بارش کے پانی اور مٹی سے میلا ہورہا تھا ،اس کے اندر ہلچل ہورہی تھی اور بچے کی آواز آرہی تھی۔یہ منظر دیکھ کر میں بہت گھبرایا،سمجھا کہ یہ کوئی جن بھوت کا کام ہے ۔اللہ نے مجھے ہمت دی اور میں نے نیچے اتر کر کفن ہٹایا تو نیچے ایک بچہ پڑا تھا جو لگتا تھا ایک دن پہلے پیدا ہواتھا ۔یہ بچہ اسی عورت کا تھا ،اور لگتا تھا وہ ایک دو دن پہلے مر چکی تھی ۔میں نے بچہ اٹھایااور اپنیکٹیا میں اسے لے آیا ۔اپنی بیوی کو دیا اور اسے سارا واقعہ بتایا ۔اللہ والی کو اس بچے پر بڑا پیار آیا اور اسے ہم نے پالا ۔اسکا نام محمد رمضان رکھا ۔سارے لوگ اسے رمضانی کہتے ہیں ۔ایک اور بات ۔۔میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح پتہ کروں کہ اس قبر والی عورت کے وارث کون تھے لیکن جب ناکام رہا تو رمضانی کو ہم نے ماں باپ بن کر پالا ۔ یہ ابھی بچہ ہی تھا مگر اسے قبر وں سے بڑا پیار ہوگیا،یہ قبروں سے لپٹ کر سوتا ہے۔اللہ نے اسکے اندر کوئی ایسی قوت رکھی ہے کہ یہ قبر سونگھ کر بتا دیتا ہے کہ اس میں جو مردہ ہے وہ عورت کا ہےیا مرد کا،بچے کا ہے یا بڑے کا۔کتنا پرانا ہے‘‘ آج جب یہ واقعہ بیان کررہا ہوں تو میری برسوں پرانی حیرتوں کا سفر تمام ہوگیا ہے ،کیونکہ آج ہی میں نے افریقہ کی ایک خبر پڑھی ہے جس میں اس واقعہ سے ملتا جلتا واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔نہ جانے افریقہ میں قبر میں جنم لینے والے بچے میں رمضانی جیسی قوت موجود ہے یا نہیں