لاہور (نیوز ڈیسک آن لائن) مہذب جمہوریتوں میں جلسوں اور جلوسوں کو ہمیشہ جمہوریت کے حسن سے تشبیہ دی جا تی ہے اور اسطرح کے ہونے والے جلسوں اور جلوسوں کا مقصد جمہوریت کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی اصلاح بھی ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان میں اپوزیش کے جلسوں اور جلوسوں کا
نامور کالم نگار احسان الحق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واحد مقصد اقتدارمیں آئی حکومت کو گرا کر حکومت میں آنا ہوتا ہے۔پاکستان میں آجکل اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد پی ڈی ایم کے زیر اہتمام جلسے اور جلوس اسی کی کڑی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے اور جلوس کہیں تشدد کا راستہ نہ اختیار کر لیںکیونکہ پی ڈی ایم کی قیادت میں بعض ایسے سیاسی رہنما شامل ہیں جو خود تو کسی اسمبلی کے رکن نہیں ہیں مگر انکی جماعتوں کے کئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوںکے ممبر ہونے کے باوجود وہ ان اسمبلیوں کو مسلسل جعلی تو قرار دے رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی اسمبلیوں میں موجود اراکین کو استعفٰے دینے بارے ہدایات جاری نہیں کیں۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ منگل کے روز پی ڈی ایم کے ایک سربراہی میں کئے گئے فیصلے کے مطابق پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اکتیس دسمبرتک اپنے استعفٰے اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہوں کے پاس جمع کروا نے بارے ہدایات جاری کی گئی ہیں تاہم پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے دو اراکین اسمبلی نے استعفٰے نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔راقم سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ صیحی ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے لیکن حقیقی طور پر وہ اپنے حلقے کے عوام کی اسمبلیوں میں ترجمانی کر رہے ہیں جس سے وہ انہیں محروم نہیں کر سکتے۔ اگر پارٹی چاہے تو آئندہ عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ
نہ دے۔ پی ڈی ایم اتحاد ابھی تک جنوبی پنجاب میں ’’مقبولیت‘‘ حاصل نہیں کر سکا۔ملتان میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں سوائے یوسف رضا گیلانی کے خاندان کے کسی بڑے سیاسی خاندان اور اتحادی جماعتوں کے ایم این اے اورایم پی ایز نے شرکت نہیں کی ۔ ذرائع کے مطابق ضلع رحیم یار خان سے استعفٰے نہ دینے والے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد دو سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت پنجاب کی کوششوں سے جنوبی پنجاب میں تمام شوگر ملز دس نومبر سے فعال کر دی گئیںجس کے باعث دو تین ہفتوں کے دوران ہی چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی واقع ہونا شروع ہو گئی اور چینی کی قیمتیں ایک سو دس روپے فی کلو گرام سے کم ہو کر اس وقت پچھتر روپے فی کلو گرام تک گر گئی ہیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند روز کے دوران اس میں مزید کمی واقع ہو گی جسے عوام میں بے حد سراہا جا رہا ہے۔پنجاب حکومت کی بہترین حکمت عملی سے چینی کی قیمتیں کم ہونے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے کھیت بھی جلد خالی ہونے سے گندم کی کاشت بھی پہلے سے بہتر ہو گئی ہے مگر پنجاب حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے نئے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ کے نفاذ سے رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کی تمام شوگر ملز مسائل کا شکار ہیں اور کاشتکاروں کو گنے کی ادائیگی بینک کے ذریعے کرنے کے ساتھ ساتھ شوگر ملز میں گنا لے کر آنے والی ٹرالیوں کو کرائے وغیرہ کی ادائیگی تک نئے قوانین کے باعث شوگر ملز کو گنا خریداری میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے شوگر ملز کو کسانوں کو گنا خریداری کے عوض نقد ادائیگی کی اجازت دی گئی ہے ۔ مقامی شوگر ملز کو گنا کی انتہائی محدود دستیابی کے باعث ضلع رحیم یار خان میں ابھی تک کوئی بھی شوگر مل اپنی بھر پور پیداواری صلاحیت کے مطابق فعال نہیں ہو سکی۔