پاکستان کے معروف اسلامک سکالر اور مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ امریکہ کے شہر کیلیفورنیا میں ایک سائنسدان تھا، جو کائنات کی تخلیق سے متعلق تحقیق کر رہا تھا۔ اپنی تحقیق کے دوران اس نے دیکھا کہا کہ بڑے منظم انداز میں کائنات کا پھیلائو جاری ہے اور اس پھیلائو میں ایک ربط موجود ہے،
جو کہ انتہائی طاقتور ہے۔ مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ وہ ساہیوال میں تھے ایک بچہ میرے پاس آیا جو کہ غالباَ طالب علم لگ رہا تھا، اس کے کان پر ہیڈ فون لگا ہوا تھا، اس نے کہا کہ یہ ہیڈفون اس وقت انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے اور اس وقت سات سو لڑکے آپ کی بات سنیں گے جو آپ مجھ سے کرینگے ۔ اس نے بتایا کہ ایک یہودی تل ابیب میں موجود ہے اور ہم سے سوال کر رہا ہے کہ کائنات جس دھماکے سے بنی یعنی بِگ بینگ تِھیُوری اس سے متعلق تمہارے قرآن شریف میں کوئی آیت موجود ہے؟ اگر ہے تو مجھے بتائومیں مسلمان ہو جائوں گا۔ یہ بات سن کر میں نے اس بچے کو کہا کہ بچے ہمارا قرآن سائنس کی تصدیق کرنے نہیں آیا اور نہ ہی سائنس کو جھٹلانے آیا، ہمارا قرآن ہدایت کیلئے آیا ہے، زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ہے اور وہ دنیا کی چیزوں کے بارے میں بھی آگاہ کرتا ہے۔ انہوں نے مزید قرآن پاک سے حوالہ دیا کہ ‘یہ جو میرے منکر ہیں ان کو پتہ نہیں کہ زمین اور آسمان ایک ملا ہوا مادہ تھا (القرآن :سورۃ انبیا، آیت30)’۔ جیسے گوشت ایک الگ چیز ہے، سبزی ایک الگ چیز ہے، نمک اور مرچ الگ چیزیں ہیں اور جب ہم سالن بناتے ہیں تو تمام چیزیں مل کرنئی چیز بناتی ہے اور پھر وہ چیز اس میں سے نہیں نکل سکتی، نہ نمک ، نہ مرچ اور نہ کوئی اور مصالحہ سالن سے جدا کیا جا سکتا ہے۔ جسسورۃ انبیا کی آیت 30 میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن میں رب تعالیٰ سورہ انبیا کی آیت نمبر تیس میں کہتے ہیں کہ یہ کائنات ایک ملا ہوا مادہ تھا، جس کو ہم نے پھر پھاڑا، اور ایک دھماکے کے ساتھ ہم نے اسے پھیلانا شروع کیا (آیت کا مفہوم)۔ کو عربی زبان میں ‘رتقا’ (الف ساکن) کہتے ہیں۔ جبکہ فتقا (الف ساکن) سے مراد پھاڑنا ہے۔