لاہور (نیوز ڈیسک) سوچنے کی بات یہ ہے کہ انصاف کے بغیر امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ فلسطین پر قبضہ ناجائز ہے‘ قابلِ مذمت۔ لیٹ جانے والے اور وہ بھی جو اپنی چٹائیاں لیٹنے کے لئے تیار کر رہے ہیں‘ دلیل یہ دے رہے ہیں کہ اسرائیل کی طاقت کا سکہ مان لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نامور کالم نگار رسول بخش رئیس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وطنِ عزیز میں بھی دانش ور گماشتے موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ فرماتے ہیں‘ ہمارا اسرائیل کے ساتھ کیا جھگڑا ہے؟ کوئی براہ راست جھگڑا نہیں‘ مگر فلسطینیوں کی حمایت ترک کر کے آپ کو ملے گا کیا؟ ہمارے گھٹنا ٹیک پرویز مشرف پہلے بھی اور اب بھی توجیہہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اسرائیلی لابی ہمارے خلاف امریکہ اور مغرب میں متحرک رہتی ہے‘ مان جانے کی صورت میں خاموش ہو جائے گی۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا! اس لئے کہ ان کے اہداف یہ ہرگز نہیں۔ ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہنا چاہئے۔ ان کی اخلاقی‘ سفارتی اور مالی امداد جاری رکھنا چاہئے کہ یہ امداد بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے سے کچھ زیادہ افادیت کی حامل ہے۔ جس انداز میں ہمارے عرب بھائیوں نے فلسطینیوں کو بے یارومددگار چھوڑا ہے‘ سفاکی سے کم نہیں۔ ان کا اندر ہی اندر اسرائیل کے ساتھ لین دین‘ پیار محبت‘ ایران کے خلاف مشاورت اور منصوبہ بندی تو ایک عرصے سے جاری تھی‘ کم از کم پردے ہی میں رکھتے۔ اسرائیل نے اپنے نئے عرب دوستوں کے احترام میں فلسطینی علاقوں کو یہودی ریاست کا حصہ بنانے کا عمل کچھ عرصے کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔ ٹھیک ہے‘ فلسطینی قیادت کا ایک حصہ دو ریاستوں کے فارمولے کو قبول کر چکا ہے‘ لیکن اس کے بعد ہوا یہ کہ اسرائیل دریائے اردن کے مغربی مقبوضہ علاقوں میں بستیاں پھیلاتا چلا گیا اور حتمی سمجھوتے کو التوا میں ڈالتا چلا گیا۔ تین امور پر وہ اصرار کرتے رہے ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کو واپس آنے کا حق دیا جائے‘ اسرائیلی بستیوں کا خاتمہ کیا جائے اور مہاجرین کی املاک کی واپسی کا اہتمام کیا جائے۔ ان میں سے کسی معاملے میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ الٹا نقصان یہ ہوا کہ فلسطینی بھی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے۔ حماس اب بھی ایک فلسطینی ریاست کے اصول پر قائم ہے‘ جس میں ہر مذہب کے لوگ رہ سکتے ہوں اور جس کی بنیاد جمہوریت پر ہو۔ عربوں کو نہ جانے جلدی کس بات کی تھی؟ بجائے اس کے کہ دو ریاستوں کو ہی قابلِ عمل بنانے میں کچھ وزن فلسطینیوں کے پلڑے میں ڈالتے‘ صرف اپنی راہ نکال لی۔ اسرائیل شاید اونچی دیواریں کھڑی کر کے چین کی نیند سو سکے‘ مگر عرب جس مقصد کے لئے تزویراتی اتحاد کا حصہ بن رہے ہیں‘ وہ عرب سرزمینوں پر اندرونی صف بندیوں اور لڑائیوں میں مزید تیزی لا سکتا ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہانہ فیصلوں سے نہ جانے کتنی اور قیمتی جانیں ضائع ہوں۔