لاہور (شیر سلطان ملک ) ذہنی طور پر گھٹن اور حبس کے مارے معاشرے میں ایک ماں کو اسکے معصوم بچوں کے سامنے بے عزت کرکے رکھ دیا گیا اور اس معاشرہ کے محافظ کہہ رہے ہیں ، اس عورت کو ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ رات گئے گھر سے باہر نکلی ۔۔۔
آئیے جان لیں اور مان لیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کے نوجوانوں کی اکثریت غیر اخلاقی فلمیں ، آفرین خان پلس ثوبیہ خان کے جلوؤں پر مبنی مجرے اور شی میل مہک ملک میں پتہ نہیں کیا دیکھ کر اخلاقی وذہنی طور پر برباد ہو چکی ہے ، ان ہوس کے ماروں کو اپنے اندر جاگے ہوئے شیطان کو سلانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے ۔یہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے ، صنف نازک کے قرب کے لیے ترسے ہوئے شیطان کے ایک چیلے نے موقع دیکھتے ہی حیوانیت کی انتہا کر ڈالی ، وہ نہ کسی کوٹھے پر گیا اور نہ کسی بازاری عورت کےدروازے پر بلکہ رات کے اندھیرے میں سڑک کنارے بھیڑیے کی طرح گھات لگا کر بیٹھ گیا ، اس خاتون کی بدقسمتی کہ اسکی گاڑی کا پٹرول ختم ہوا اور وہ بھیڑیوں کے اس غول کے ہتھے چڑھ گئی ،یہ بھیڑیے ہی تو تھے جو نہ صرف بچوں کے سامنے خاتون کےساتھ غلط کاری کرتے رہے بلکہ اس کو زد و کوب بھی کرتےرہے ۔ اب پولیس کےد عوے کے مطابق ملزم گرفتار ہو چکے ، ان میں سے ایک عادی مجرم اور پہلے بھی ایسے سنگین جرائم میں ملوث رہا ، دوسرا بھی چند روز قبل قید سے رہا ہوا ، مانا کہ یہ دونوں اپنے انجام کو پہنچیں گے اور خس کم جہاں پاک والا معاملہ ہو گا ، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کریہہ واقعات کا سدباب کیسے ہو گا ؟ آپ کو یاد ہو گا قصور کی بے قصور زینب
کے ساتھ ظلم کرنے والے ملزم عمران نے تفتیشی اداروں کو بتایا تھا کہ اسکے بچپن میں اسکے ساتھ ایک دو نہیں کئی لوگوں نے غلط کاری کی تھی اس وجہ سے اسے یہ عادت پڑی اور وہ بھی اس راہ پر چل پڑا ، حالیہ واقعہ میں خاتون کے ساتھ اسکے بچوں کے سامنے جو کچھ ہوا ، ایک پروفیشنل لٹیرا کبھی ایسا نہیں کرتا ، اپنے مشن پر نکلنے کے بعد لٹیروں کی ساری توجہ اپنے شکار اور اسکے پاس موجود مال ودولت پر ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات کہ ڈاکو وارداتوں میں لوٹا گیا مال زیادہ تر طوائفوں کے کوٹھوں اور مجروں پر ہی لٹاتے ہیں ۔ یہ بھی یقیناً ایسا ہی کوئی جنونی ہے جسکے ساتھ ماضی میں بدفعلی ہوئی اور پھر یہ خود اور اسکے ساتھی اسی راہ پر چل نکلے ۔ ایسے بچے اور نوجوان ہمارے شہروں میں ، گلیوں اور کوچوں ، بسوں کے اڈوں اور ہوٹلوں پر شکار ہو رہے ہیں ، یہی بچے کچھ سال بعد جب جوان ہونگے تو کیا اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کریں گے؟ ہرگز نہیں ان کی اکثریت حیوانیت کے نت نئے طریقوں سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لے گی ، جو ایسے نہ کرسکے وہ ناکام ترین انسان ثابت ہونگے ، کیونکہ انکے ذہنون اور روحوں کو بری طرح مسل دیا گیا تھا ۔ قارئین جان لیں اور مان لیں کہ ہمارے بچے ہمارے اپنے گھروں میں محفوظ نہیں ، ہماری نوجوان نسل بری طرح اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے ، ہمارے شہروں گلیوں اور محلوں میں
چھوٹے 20، 50 اور 100 روپے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور ہماری بچیاں ایک موبائل کی خاطر اپنی عزت نیلام کر دیتی ہیں ۔ گھر سے باہر نکلتے ہی قدم قدم پر ٹھرک جھاڑنا ، ہر عورت کو ہر زاویے سے گھورنا ، بازاروں میں سارا دن بھونڈی ، ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ عورت کو موضوع بنا کر اخلاق سے گرے ہوئے مذاق اور محلے کی ہر خوبصورت لڑکی پر ڈورے ڈالنے اور تبصرہ بازی ۔ ہمارے پاکستانیوں نوجوانوں کی دن بھر کی مصروفیت بس یہی کچھ ہے ، کیونکہ کرنے کو دیگر سرگرمیاں ، کھیل کے میدان اور مختلف مشغلے تو ہیں نہیں ۔جناب والا ایک بار پھر جان لیجیے اور مان لیجیے کہ ہمارا معاشرہ ایک 2 دن یا ایک دو ماہ میں ٹھیک ہونے والا نہیں ، ایسے جرائم پر سخت ترین سزائیں بھی ایک حل مگر مستقل اور واحد حل نہیں ، مقتدر حلقوں کو سب سے پہلے معاشرہ کی اخلاقی بنیادوں کا دن رات کھوکھلا ہوتا سلسلہ روکنا ہو گا ۔ نوجوانوں کو وقت گزارنے کا درست طریقہ کار بتانا ہوگا انکی سرگرمیوں اور توانائیوں کے استعمال کا رخ کسی مثبت طرف موڑنا ہو گا ، انہیں تھیٹروں میں جاری گھٹیا اور گندے ترین سٹیج ڈراموں کی بجائے کھیل کے میدانوں کی طرف راغب کرنا ہو گا ۔ اور دن رات موبائل پر دعوت دیتی جوان جسموں کو بورھا کر دینے والی رنگینیوں کی بجائے صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا ہو گا ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جلد ہر گلی محلے سے بھیڑیے برآمد ہونگے جو اپنے سامنے آنے والے ہر بچے ، بچی ، خاتون حتیٰ کہ اپنی ماؤں جیسی خواتین کو بھی نہیں بخشیں گے۔